Posts

Showing posts from March, 2019

فیض احمد فیض کی فارسی نعت مع ترجمہ

Image
فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے نمائندہ شاعر تھے۔ انھوں نے تمام عمر خواجگانِ تخت اور صاحبِ ملک و مال کے خلاف آواز اٹھائی اور عام آدمی پر ہونے والے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کیں۔ فیض کو روس کی طرف سے لینن پرائز بھی دیا گیا۔ ان کا کلیات " نسخہ ہائے وفا" کے نام سے شائع ہوا۔ فیض انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انھوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے۔ لیکن ان کا اردو کلیات منظرِ عام پر آیا اور فارسی اشعار بھی اسی میں شامل ہیں۔ فیض کی ایک فارسی نعت جو ان کی کتاب غبار ایام میں شامل ہے۔ وہ ترجمہ کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔ ای تو که ھست هر دل محزون سرایِ تو آوردہ    ام   سرایِ   دگر   از   برا یِ   تو اے رسول اللہ ص ہر غم زدہ دل میں آپ بستے ہیں ۔میں نے  آپ کے لیے ایک اور گھر بنایا ہے تاکہ میرے غمزدہ دل میں آپ کا ٹھکانہ ہو جائے۔ خواجہ بہ تخت بندۂِ تشویشِ ملک و مال بر خاک رشکِ خسروِ دوران گدایِ تو امیر تخت پر بیٹھ کر ملک و مال کے لیے پریشان ہے جبکہ تیرا گدا زمین پر بیٹھا ہوا خسروِ دوراں کے لیے قابل رشک ہے۔ آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لِقای

شیلے کی اک نظم کا اردو ترجمہ

Image
Love's Philosophy-فلسفہِ محبت شیلے اٹھارویں صدی کا بہت عظیم شاعر تھا۔ اس کو انگریزی شاعروں میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ شیلے کی شاعری در اصل رومانوی شاعری ہے۔ لیکن اس کی نظموں کے مضامین رومانوی ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی ہیں۔ شیلے کی ایک نظم Love's Philosophy کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔  اصل متن The fountains mingle with the river     And the rivers with the ocean,  The winds of heaven mix for ever     With a sweet emotion;  Nothing in the world is single;     All things by a law divine  In one spirit meet and mingle.     Why not I with thine?—  See the mountains kiss high heaven     And the waves clasp one another;  No sister-flower would be forgiven     If it disdained its brother;  And the sunlight clasps the earth     And the moonbeams kiss the sea:  What is all this sweet work worth     If thou kiss not me?   -:اردو ترجمہ فلسفہِ محبت آب شاریں دریا میں جا گرتی ہیں اور دریا سمندر میں شیریں جذبوں کے سہارے آب کو عمل تسخی

نظم " رمز " از جون ایلیا

Image
رمز جون ایلیا کی نظم "رمز" ان کی کتاب "شاید" میں موجود ہے۔  تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن مژدۂ عشرت انجام نہیں پا سکتا زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا نوٹ: اس نظم کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ہے۔

غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند

Image
غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند غالب اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے بھی عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے فارسی میں بھی عمدہ اشعار تخلیق کیے ۔ غالب نے فارسی ایک ایرانی شاعر ملا عبدالصمد سے پڑھی تھی۔ اسی سلسلے میں ملا عبدالصمد نے غالب کے یہاں دو سال قیام بھی کیا تھا۔  غالب نے اپنے خطوط میں بھی اپنی فارسی دانی کا بہت فخر سے ذکر کیا ہے۔ وہ تمام عمر اپنے فارسی کلام پر نازاں  رہے۔ چوں کہ اِس دور میں فارسی پاکستان میں نہیں بولی جاتی اور نہ ہی اس پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس لیے غالب کے فارسی دیوان پر زیادہ کام نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ دیوان فارسی عام لوگوں کی فہم اور دست رس سے کوسوں دور ہے۔  غالب کے دور میں نواب مصطفی خاں شیفتہ کا چرچا تھا۔ نواب صاحب کا شمار دلی کے اچھے شعرا میں ہوتا تھا ۔ نواب صاحب فارسی کے عالم تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔  فارسی اشعار میں حسرتی تخلص کرتے تھے۔ غالب کوئی غزل اس وقت تک اپنے فارسی دیوان میں شامل نہ کرتے۔ جب تک شیفتہ اسے پسند نہ کر لیتے۔ غالب کے دیوان فارسی میں صرف وہ غزل شامل کی جاتی جسے شیفتہ پسند کرتے۔  اس بارے میں غالب نے ایک شعر بھی کہا تھا۔ جو ان کے دی

حبیب جالب کی ایک نظم "دستور"

Image
دستور حبیب جالب پاکستانی انقلابی شاعر تھے۔ ان کی نظم دستور پیش کر رہا ہوں۔ دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے ظلم کی بات کو جہل کی رات کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا نوٹ : یہ نظم بحر متدارک مثمن سالم میں لکھی گئی ہے۔ جس کے آہنگ " فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن" ہیں۔