درود بہ پاکستان شاعر: ملک الشعرا بہار ترجمہ: طلحہ فاران ~ ھمیشہ لطفِ خدا باد یارِ پاکستان بکین مباد فلک با دیارِ پاکستان خدا کا لطف و کرم ہمیشہ پاکستان کا مددگار ہو اور ( خدا کرے) سر زمین پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ ~ سزد کراچی و لاھور قبۃ الاسلام که ھست یاریِ اسلام کارِ پاکستان کراچی اور لاھور اسلام کے گنبد ( اسلام کے گہوارے) کہلانے کے اہل ہیں۔ اسلام کی مدد پاکستان کا شعار ہے۔ ~ ز فیض سعی و عمل و ز شمول علم و ہنر فزون شود ھمہ روز اعتبارِ پاکستان سعی و عمل اور علم و ہنر کی بدولت پاکستان کا اعتبار و وقار روز بروز زیادہ ہوتا جارہا ہے۔ ~ تپد چو طفل ز مادر جدا دلِ کشمیر که سر ز شوق نہد در کنارِ پاکستان جس طرح بچہ ماں سے دور جانے پر بے قرار ہوتا ہے۔ کشمیر بھی اسی طرح بے قرار ہے۔ تاکہ وہ پاکستان کی گود میں پیار سے سر رکھے۔( پاکستان کے ساتھ مل جائے) ~ چو مادری کہ فرزندِ شیر خوار جدا ست نجات کاشمر آمد شعارِ پاکستان جس طرح ماں شیر خوار بچے کے جدا ہو جانے پر اسے پانے کے لیے بے قرار ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان نے کشمیر کی آز
پاکستان کے فارسی گو شاعر اقبال لاہوری کے بارے میں، ہوشنگ ابتہاج سایہ اپنی کتاب پیر پرنیان اندیش کی جلد دوم ص 845 پر لکھتے ہیں: (عظیمی اور سایہ کے درمیان مکالمہ) عظیمی : آپ اقبال لاہوری کے بارےمیں کیا رائے رکھتے ہیں؟ سایہ : شاعر برا نہیں ہے لیکن کہیں بہت اعلی لکھتا ہے تو کہیں سطحی، بس اس کی شعریات اسی پریشان حالی کا شکار ہے۔ بہت جگہوں پر اس کی فارسی زبان دانی کمزور پڑ جاتی ہے۔ خیر، وہ اہل زبان نہیں ہے۔ لیکن بعض جگہوں پر اس نے بہت اعلی بھی لکھا ہے۔ عظیمی : مثال کے طور پر کن جگہوں پر؟ سایہ : مثلا وہ شعر کہ ھستم اگر میروم ساحل افتاده گفت گرچه بسی زیستم هیچ نه معلوم گشت آه که من کیستم موج زخود رفتهای تیز خرامید و گفت هستم اگر میروم گر نروم نیستم یا یہ شعر بہت عجیب و غریب ہے۔ ما زنده برآنیم که آرام نگیریم موجیم که آسودگی ما عدم ماست یا وہ عزل کہ خود گری، خود شکنی،خود نگری۔۔۔۔۔ بہترین غزل ہے۔ نعره زد عشق که خونینجگری پیدا شد حسن لرزید که صاحبنظری پیدا شد فطرت آشفت که از خاک جهان مجبور خودگری خودشکنی خودنگری پیدا شد خبری رفت ز گردون به شبستان ازل حذر ای پردگیان پردهدری پیدا شد
غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند غالب اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے بھی عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے فارسی میں بھی عمدہ اشعار تخلیق کیے ۔ غالب نے فارسی ایک ایرانی شاعر ملا عبدالصمد سے پڑھی تھی۔ اسی سلسلے میں ملا عبدالصمد نے غالب کے یہاں دو سال قیام بھی کیا تھا۔ غالب نے اپنے خطوط میں بھی اپنی فارسی دانی کا بہت فخر سے ذکر کیا ہے۔ وہ تمام عمر اپنے فارسی کلام پر نازاں رہے۔ چوں کہ اِس دور میں فارسی پاکستان میں نہیں بولی جاتی اور نہ ہی اس پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس لیے غالب کے فارسی دیوان پر زیادہ کام نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ دیوان فارسی عام لوگوں کی فہم اور دست رس سے کوسوں دور ہے۔ غالب کے دور میں نواب مصطفی خاں شیفتہ کا چرچا تھا۔ نواب صاحب کا شمار دلی کے اچھے شعرا میں ہوتا تھا ۔ نواب صاحب فارسی کے عالم تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔ فارسی اشعار میں حسرتی تخلص کرتے تھے۔ غالب کوئی غزل اس وقت تک اپنے فارسی دیوان میں شامل نہ کرتے۔ جب تک شیفتہ اسے پسند نہ کر لیتے۔ غالب کے دیوان فارسی میں صرف وہ غزل شامل کی جاتی جسے شیفتہ پسند کرتے۔ اس بارے میں غالب نے ایک شعر بھی کہا تھا۔ جو ان کے دی
Comments
Post a Comment