Posts

Showing posts from February, 2021

دو ناکام فلسفی

Image
انسان اپنے آپ کو تلاشتے برسوں صرف کرتا ہے۔ اپنی تلاش کےدوران کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں جو خود تو کم کم ملتے ہیں۔ لیکن ان سے دل بار بار ملتا ہے۔ ادبیات ایک باغ ہے۔ جس میں ہر نئی فصل میں نئے پھول کھلتے ہیں۔ نئے پھل اگتے ہیں۔ لیکن فلسفہ اس سب سے الگ ہے۔ خشک، قطعی صحرا کے مانند۔ انسان ہمیشہ کسی نہ کسی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ کبھی کسی خیال کے ساتھ تو کبھی کسی ہم خیال کے ساتھ۔ اقبال کی سوانح سے فلسفے کا شوق ہوا تھا۔ لیکن موقع نہیں بنتا تھا کہ باقاعدہ فلسفہ پڑھا جا سکے۔ صبح کا سورج طلوع ہوتا تھا اور شام کو طشت افق سے لالے پھول لے کر شام سیاہ قبا کو مار کر غروب ہو جاتا تھا۔ زندگی تو تھی لیکن اس کے معنی و مفاہیم پر غور و فکر کی تحریک نہ تھی۔ دنیا صرف ایک بہتے دریا کی سی تھی۔ سب بے معنی سا تھا۔ لیکن پھر ایک لڑکا ملا۔ مست، جوان مطالعے کا رسیا۔ وہ ایہاب شریف تھا۔ جس نے سعودی کی گلیوں میں ایک لمبا عرصہ گزارا تھا۔ ہم نے فلسفہ پڑھنا ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ کیا زمانہ تھا کہ ہم نطشے کو فلاسفیوں کا خدا سمجھتے تھے۔ اس کے اخلاقی فلسفے کو ہی دنیا کی بہتری کا آخری حل سمجھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم نطشے کو پڑھتے پڑھ

نظم "گزرتی شام" از طلحہ فاران

Image
گزرتی شام از طلحہ فاران ہےکنجِ قفس میں عجب سی یہ رونق زِ پیشِ سلاسل، تمناؤں کا رقص نگہ سے ٹپکتی ہوئی وحشتوں کے اجالے بدن فرش افتادہ، ترسیدہ سا دل فسوں خیز جذبوں کے دم توڑنے کی صدائیں تری یاد کے نغمہ ہائے شرربار دلِ خستہ، ناکردہ کی گلیوں میں چلتی ہوئی عجب سرد و تیرہ ہوائیں تجھے ناشنیدہ سے الفاظ میں اک بلاتا ہوا دل پسِ سلسلہ ہائے تاریک و تیرہ میں بیٹھا ہوا مَیں!! مرا دل قزاگندہ بہ آہ و نالہ بہ سوئے قفس ہولے سے یوں بلاتا ہے تم کو کوئی شام سورج کو آواز دیتی ہو جیسے پکھیرو کوئی آشیانے کو لپکے مگر میری آواز کیسے تمھاری طرف آن پہنچے سہانی محبت بھری شام میں ہے اداسی کا غوغا  میں تنہا نشستہ ہوں سمجھاتا دل کو  کبھی ورغلاتا ہوں دل کو بہت شامیں ایسے گزرتی ہیں میری کسی شام یوں ہی گزر جاؤں گا میں طلحہ فاران