پیر پرنیان اندیش در صحبتِ سایہ اور اقبال لاہوری
پاکستان کے فارسی گو شاعر اقبال لاہوری کے بارے میں، ہوشنگ ابتہاج سایہ اپنی کتاب پیر پرنیان اندیش کی جلد دوم ص 845 پر لکھتے ہیں:
(عظیمی اور سایہ کے درمیان مکالمہ)
عظیمی: آپ اقبال لاہوری کے بارےمیں کیا رائے رکھتے ہیں؟
سایہ: شاعر برا نہیں ہے لیکن کہیں بہت اعلی لکھتا ہے تو کہیں سطحی، بس اس کی شعریات اسی پریشان حالی کا شکار ہے۔ بہت جگہوں پر اس کی فارسی زبان دانی کمزور پڑ جاتی ہے۔ خیر، وہ اہل زبان نہیں ہے۔ لیکن بعض جگہوں پر اس نے بہت اعلی بھی لکھا ہے۔
عظیمی: مثال کے طور پر کن جگہوں پر؟
سایہ: مثلا وہ شعر کہ ھستم اگر میروم
ساحل افتاده گفت گرچه بسی زیستم
هیچ نه معلوم گشت آه که من کیستم
موج زخود رفتهای تیز خرامید و گفت
هستم اگر میروم گر نروم نیستم
یا یہ شعر بہت عجیب و غریب ہے۔
ما زنده برآنیم که آرام نگیریم
موجیم که آسودگی ما عدم ماست
یا وہ عزل کہ خود گری، خود شکنی،خود نگری۔۔۔۔۔ بہترین غزل ہے۔
نعره زد عشق که خونینجگری پیدا شد
حسن لرزید که صاحبنظری پیدا شد
فطرت آشفت که از خاک جهان مجبور
خودگری خودشکنی خودنگری پیدا شد
خبری رفت ز گردون به شبستان ازل
حذر ای پردگیان پردهدری پیدا شد
اصل فارسی متن
Boht umdah jeenab
ReplyDeleteBoht umdah jeenab ❤️
ReplyDeleteخوب است
ReplyDelete