اقبال، اثر صاحب اور میں

 
اقبال، اثر صاحب اور میں

ہائی سکول کا زمانہ ایک یادگار کے طور ہر میرے ذہن میں محفوظ رہ گیا ہے۔ وقت کے تند و تیز دریا میں یادیں تو جیسے گھاس پھوس کی مانند بہہ جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ یادیں اس قدر حسین ہوتی ہیں کہ بھولتی نہیں ہیں۔ ہائی سکول میں اساتذہ تو سب ہی اچھے تھے۔ لیکن میرا قلبی لگاؤ ذکا اللہ اثر صاحب سے کچھ زیادہ تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں ہائی سکول گیا تھا تو صرف ایک صاحب کے چرچے تھے۔ ہر بچہ ذکا اللہ اثر صاحب کا شاگرد ہونے پر فاخر تھا۔ خدا کی رحمت کہ مجھے بھی اردو اثر صاحب نے پڑھائی۔ ان سے وابستگی کب دل بستگی میں بدل گئی پتا ہی نہیں چلا۔ بہرحال دو سال کا طویل عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ الواعی تقریب قریب تھی۔ الوداعی تقریب سے ایک دن قبل ہم طالب علموں کو سکول سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس دور میں ایک رواج چل نکلا ہے کہ بچے اپنے اساتذہ سے اپنی شرٹ ہر دستخط کرواتے ہیں۔ میں بھی اس روایت کی پاسداری میں رنگ برنگے مارکر لیے اثر صاحب کے پاس جا پہنچا اور ان سے دستخط کی فرمائش کی۔ 


یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اثر صاحب اقبالیات اور بالخصوص تصوف کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔

 اثر صاحب نے اقبال پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے۔ آٹوگراف میں اقبال کا ایک شعر لکھ دیا۔ شعر بھی کیا برمحل تھا، شعر کیا نصیحت تھی، نصیحت کیا دعا تھی۔ سرخ مارکر سے یہ شعر مرحمت فرمایا تھا:

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے



Comments

Popular posts from this blog

درود بہ پاکستان- ملک الشعرا بہار کا پاکستان کے لیے ایک قصیدہ مع ترجمہ

پیر پرنیان اندیش در صحبتِ سایہ اور اقبال لاہوری

غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند