دو ناکام فلسفی

انسان اپنے آپ کو تلاشتے برسوں صرف کرتا ہے۔ اپنی تلاش کےدوران کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں جو خود تو کم کم ملتے ہیں۔ لیکن ان سے دل بار بار ملتا ہے۔ ادبیات ایک باغ ہے۔ جس میں ہر نئی فصل میں نئے پھول کھلتے ہیں۔ نئے پھل اگتے ہیں۔ لیکن فلسفہ اس سب سے الگ ہے۔ خشک، قطعی صحرا کے مانند۔ انسان ہمیشہ کسی نہ کسی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ کبھی کسی خیال کے ساتھ تو کبھی کسی ہم خیال کے ساتھ۔ اقبال کی سوانح سے فلسفے کا شوق ہوا تھا۔ لیکن موقع نہیں بنتا تھا کہ باقاعدہ فلسفہ پڑھا جا سکے۔ صبح کا سورج طلوع ہوتا تھا اور شام کو طشت افق سے لالے پھول لے کر شام سیاہ قبا کو مار کر غروب ہو جاتا تھا۔ زندگی تو تھی لیکن اس کے معنی و مفاہیم پر غور و فکر کی تحریک نہ تھی۔ دنیا صرف ایک بہتے دریا کی سی تھی۔ سب بے معنی سا تھا۔ لیکن پھر ایک لڑکا ملا۔ مست، جوان مطالعے کا رسیا۔ وہ ایہاب شریف تھا۔ جس نے سعودی کی گلیوں میں ایک لمبا عرصہ گزارا تھا۔ ہم نے فلسفہ پڑھنا ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ کیا زمانہ تھا کہ ہم نطشے کو فلاسفیوں کا خدا سمجھتے تھے۔ اس کے اخلاقی فلسفے کو ہی دنیا کی بہتری کا آخری حل سمجھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم نطشے کو پڑھتے پڑھتے، رسل تک پہنچے۔ کانٹ کو پڑھتے پڑھتے ہیگل سے آشنائی حاصل کی۔ بے استادے تھے سو جانے کہاں کہاں سے فلسفے کا مزہ چکھتے رہے۔ علی عباس جلالپوری کی روایتِ فلسفہ پڑھی۔ دکتر تیمور کے ہسٹری آف فلاسفی پر لیکچرز لیے۔ فلاسفی کو بغور پڑھنے کی حد الامکان کوشش کی۔ بہت حد تک کامیابی بھی ملی۔

سب سے اہم چیز نطشے کے اوبامینچ اور اقبال کے مرد مومن کا تقابل کیا۔ آخر کار میں جس نتیجے پر پہنچا وہ تھا" فوق البشرِ نطشے امید عارضی دارد اما مردِ کاملِ اقبال امید دائمی دارد۔ ایھاب کس نتیجے پر پہنچا مجھے یاد نہیں۔

مجھے ہرگز یاد نہیں فسفے کا نقصان کیا ہوا۔ لیکن فائدہ یہ ہوا کہ ہم انسانی نفسیات، مذہب کی تباہ کاریوں، حقائق اشیاء سے ضرور آشنا ہوئے۔ سونے پر سہاگہ اندر کے باغی کو سکون بہم پہچانے کا سامان بھی فلسفے نے کیا۔  

دراصل ہم دونوں شعر کہتے ہیں۔ ایھاب کے اشعار پر فلسفے کے اثرات زیادہ ہیں۔ ہم نے چاہا تھا کہ جامعہ جی سی میں مل کر فلسفہ پڑھیں گے۔ لیکن ایہاب کسی وجہ سے فلسفہ نہیں پڑھ سکا اور بزنس پڑھنے لگ گیا۔ میں جس کا داخلہ شعبہ فلسفہ میں ہو چکا تھا۔ فلسفہ چھوڑ کے اردو میں آگیا۔ اب فلسفہ ہے نہ وہ روزانہ کی گرم بحثیں۔ لیکن اب بھی جب کبھی نطشے کا ذکر آتا ہے تو ایھاب کا نام کانوں میں رس گھولتا ہے۔ 


ع۔ وہ ایک پل کی رفاقت بھی کیا رفاقت تھی

ایھاب کے چند اشعار


کتنے تعویذ گاڑو گے استاد؟

کھیل سارا یقین کھیلتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔

موجود کا خوشی سے تعلق نہیں کوئی

ہے بھی تو ایسے جیسے ترا اور میرا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حد سے زیادہ ماؤں کو مردانہ دیکھ کر

بیٹے تضادِ جنس سے لبریز ہو گئے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ميرے لاشعوری سکوں کا حصول ہے

میں اندرونِ خواب بلاوجہ ہنستا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



طلحہ فاران

فاران زاویے  

Comments

Popular posts from this blog

درود بہ پاکستان- ملک الشعرا بہار کا پاکستان کے لیے ایک قصیدہ مع ترجمہ

پیر پرنیان اندیش در صحبتِ سایہ اور اقبال لاہوری

غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند