نظم "گزرتی شام" از طلحہ فاران

گزرتی شام از طلحہ فاران



ہےکنجِ قفس میں عجب سی یہ رونق

زِ پیشِ سلاسل، تمناؤں کا رقص

نگہ سے ٹپکتی ہوئی وحشتوں کے اجالے

بدن فرش افتادہ، ترسیدہ سا دل

فسوں خیز جذبوں کے دم توڑنے کی صدائیں

تری یاد کے نغمہ ہائے شرربار

دلِ خستہ، ناکردہ کی گلیوں میں چلتی ہوئی

عجب سرد و تیرہ ہوائیں

تجھے ناشنیدہ سے الفاظ میں اک بلاتا ہوا دل

پسِ سلسلہ ہائے تاریک و تیرہ میں بیٹھا ہوا مَیں!!

مرا دل قزاگندہ بہ آہ و نالہ

بہ سوئے قفس ہولے سے یوں بلاتا ہے تم کو

کوئی شام سورج کو آواز دیتی ہو جیسے

پکھیرو کوئی آشیانے کو لپکے

مگر میری آواز کیسے تمھاری طرف آن پہنچے

سہانی محبت بھری شام میں ہے اداسی کا غوغا 

میں تنہا نشستہ ہوں سمجھاتا دل کو

 کبھی ورغلاتا ہوں دل کو

بہت شامیں ایسے گزرتی ہیں میری

کسی شام یوں ہی گزر جاؤں گا میں


طلحہ فاران

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

درود بہ پاکستان- ملک الشعرا بہار کا پاکستان کے لیے ایک قصیدہ مع ترجمہ

پیر پرنیان اندیش در صحبتِ سایہ اور اقبال لاہوری

غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند