امیر ہوشنگ ابتہاج سایہ: تعارف

نام، آقا امیر ہوشنگ ابتہاج سایہ ہے۔ ایران اور فارسی زبانیان کے یہاں استاد ہ۔ ا۔ سایہ کے نام سے مشہور ہیں۔ کسی دور میں جب ہم فارسی غزلوں کی تلاش میں میاں گوگل کی وساطت سے بڑے بڑے برقی صفحات کے پلندوں کی خاک چھانا کرتے تھے۔ اسی دوران میں ہمیں ایک غزل ملی۔ جس کا ایک مصرع لکھنا ہی کافی ہے (کیوں کہ یہ غزل  اہل فارسی زبان اور دانش جویان فارسی زبان میں خاصی مشہور ہے۔) " درین سرای بی کسی کسی به در نمی زند"۔ غزل تو کیا عمدہ تھی، شخصیت دیکھی تو اور بھی مرعوب ہو گئے۔ ایرانی شیریں زبان تو ہیں لیکن اس کے ساتھ فسوں ساز بھی ہیں۔ 
چون کہ ہم ایران کبھی نہیں گئے (مستقبل قریب میں جانے کا کوئی امکان بھی نہیں)۔ اس لیے سایہ کی چند تصاویر نظر سے گزری ہیں۔ کیا رخ نورانی ہے اور اشعار، اللہ اللہ جادو بیانی ہے۔ سرخ گال اور سپید ریش، مونچھیں جیسے لعل نما ہونٹوں پر غلاف ہو، گرانڈیل توند، ناتواں جسم مگر طاقت ور دماغ۔ 
جب بھی ہم سے کسی عزیز از جان نے یہ دریافت کیا ہے کہ حضور آپ کا پسندیدہ فارسی شاعر کون سا ہے؟ تو یقینا ہم خس بہ دنداں ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اجی کس کا نام لیں کس کا نہ لیں۔ خواجہ حافظ ہیں، سعدی، خواجو، خیام، مولینا، اقبال، بیدل۔ میاں!! کس کو پسندیدہ کہیں اور کس کو نہیں۔ تو کلاسیکی شعرا کے حوالے سے میں اسی کش مکش کا شکار رہا ہوں۔ لیکن بیسویں صدی کے فارسی شعرا میں مردوں میں ہ۔ ا۔ سایہ اور عورتوں میں فروغ فرخزاد دل سرکش کو پسند ہیں۔ 
آقا ہوشنگ کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی شاعری ایران کی سیاسی، ادبی اور تہذیبی شورشوں کی عکاس ہے۔ شعری ذوق کی تسکین کی خاطر آقا ھوشنگ کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں: 
تو را به روی زمین دیدم و شکفتم و گفتم
که این فـرشته برای من از بهشت رسـیده‌ 
شاعر ہونے کے ساتھ، آقا ہوشنگ موسیقار بھی ہیں۔ بی بی سی فارسی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ہوشنگ نے کہا تھا کہ وہ شاعری سے زیادہ موسیقی کو ترجیح دیتے ہیں۔ شوپن ہائر نے شاید سچ کہا تھا موسیقی روح کی غذا ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

درود بہ پاکستان- ملک الشعرا بہار کا پاکستان کے لیے ایک قصیدہ مع ترجمہ

پیر پرنیان اندیش در صحبتِ سایہ اور اقبال لاہوری

غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند