حافظ و اسعد



حافظ اور اسعد




اکثر ایک شعر کو سمجھنے کے لیے کسی اور شاعر کا ایک شعر کافی ہوتا ہے۔ میں نے کافی عرصہ قبل حافظ شیرازی کی ایک غزل "دل می رود ز دستم صاحب دلان خدا را" پڑھی تھی۔ جس کا ایک شعر مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ یقینا وہ اچھا بھی ہے۔ شعر کچھ یوں تھا:-
آسائشِ دو گیتی تفسیرِ این دو حرف است
با دوستان     تلطف     با دشمنان      مدارا
 یعنی کہ دونوں جہانوں کی خوشی اور سکون صرف دو کاموں میں مضمر ہے۔ پہلا یہ کہ دوستوں سے محبت کرو اور دوسرا یہ کہ دشمنوں کی خاطر مدارت کرو۔
 بوسنیا کے شاعر اسعد کی ایک غزل "من مست مدامم چہ کنم زھد و ریا را" آج میرے ہاتھ لگی۔ اس کا ایک شعر کچھ یوں تھا:-
بیزارم از آن مجلسِ یاران کہ وفا نیست
در مجلسِ ایشان نہ مروت نہ مدارا
یعنی کہ میں اپنے دوستوں کی مجالس سے بیزار ہو چکاہوں کیوں کہ وہاں جنس وفا ناپید ہے۔ بلکہ ان کی مجالس میں میرے ساتھ نہ تو محبت کی جاتی ہے اور نہ ہی مدارت۔ میں ان کا نہ دشمن ہوں نہ دوست۔ 
اسعد کے شعر کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے حافظ کا شعر کافی ہے۔ 

طلحہ فاران
(فاران زاویے)

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

درود بہ پاکستان- ملک الشعرا بہار کا پاکستان کے لیے ایک قصیدہ مع ترجمہ

پیر پرنیان اندیش در صحبتِ سایہ اور اقبال لاہوری

غالب کا فارسی کلام اور شیفتہ کی پسند