Posts

فاضل نظری کی غزل مع اردو ترجمہ

Image
هرچند حیا می‌کند از بوسه ما دوست دلتنگی ما بیشتر از دلهره اوست ہرچند میرے دوست کو میرے بوسہ سے حیا آتی ہے میرے دل کی اداسی اس کے خدشات سے کئی گنا زیادہ ہے الفت چه طلسمی است که باطل شدنی نیست اعجاز تو ای عشق نه سحر است نه جادوست محبت بھی کیا طلسم ہے کہ جس کا باطل ہونا ممکن نہیں اے عشق تیرا معجزہ ہے کہ تو سحر ہے نہ جادو ہے ای کاش شب مرگ در آغوش تو باشم زھری که بنوشم ز لب سرخ تو داروست اے کاش جس رات میری روح پرواز کرے میں تیری آغوش میں ہوں وہ زہر جو میں تیرے سرخ لبوں سے پیتا ہوں(میرے لیے) دوا ہے یک بار دگر بار سفر بستی و رفتی تا یاد بگیرم که سفر خوی پرستوست   تو نے اک بار پھر بار سفر باندھا اور چل دیا تاکہ میں ذہن نشین کر لوں ہجرت کرنا پرستو(ایک قسم کی چھوٹی چڑیا) کی جبلت میں شامل ہے۔  عمار اقبال کا شعر دیکھیں:  ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا تم پرندے ہو وطن چھوڑ کے جا سکتے ہو از کوشش بیهودہِ خود دست کشیدم در بسترِ مُرداب چه حاجت به تکاپوست میں نے اپنی فضول کوششوں سے ہاتھ کھینچ لیا کہ دلدل میں تگ و دو کرنے کی کیا حاجت ہے (آخر کار غرق ہی ہونا ہے) فاضل نظری  جدید ایرانی شاعر

ایرانی گلوکار عارف کا نغمہ "معجزہ ی عشق" مع اردو ترجمہ

Image
 معجزہ ی عشق (عشق کا معجزہ) عطر نفس هات ، خوشبو ترین عطر تیرے سانسوں کی مہک، خوش ترین مہک چتریِ موهات زیباترین چتر تیری زلفوں کے کنڈل، خوب صورت ترین چھلے موهای لَختت میرقصه توو باد تیرے بے پردہ نرم بال ہوا میں رقص کرتے ہیں پیشِ تو غم ها ، به چشم نمیاد  جیسے تیرے ہوتے ہوئے غم نہیں ہوتے ہیں صورتِ ماهت یه قرصِ کامل تیری صورت جیسے چودھویں کا چاند دریا به جز تو ندیده ساحل دریا نے تیرے سوا کوئی ساحل نہیں دیکھا معجزه ی عشق تو هستی و بس یہ صرف و صرف تیرے عشق کا معجزہ ہے دلم برات رفت دلت باهام هست میرا دل تیرا ہو گیا اور تیرا دل میرا ہم راہ ہے تو با منی دنیا بی نقص بی نقص تو میرے ساتھ ہے تو دنیا مکمل ہے مکمل ہے  موهای لَختِ تو توو باد میرقصه تیری بے پردہ نرم زلفیں ہوا میں رقص کر رہی ہیں من عاشقت میشم وقتی که میخندی جس وقت تو ہنستی ہے میرا دل تیرا عاشق ہو جاتا ہے وقتی که میخندی یه شهرو میبندی جس وقت تو ہنستی ہے ایک شہر محو ہو جاتا ہے تو با منی دنیا بی نقص بی نقص تو میرے ساتھ ہے تو دنیا مکمل ہے مکمل ہے جز تو با سازِ من هیچکی نمیرقصه تیرے سوا میرے ساز پر کوئی رقص نہیں کرتا ہے تو با منی دنیام آروم

فارسی نظم "تنهایی" مع اردو ترجمہ

  تنهایی معلم نیستم  تا عشق را بہ تو بیاموزم! ماھیان برای شِنا کردن نیازی بہ آموزش ندارند! پرندگان نیز؛برای پرواز..... بہ تنھائی شِنا کن! بہ تنھائی بال بگشا عشق،کتابی ندارد! خواندن نمی دانستند! اردو ترجمہ: میں اتالیق و معلم نہیں ہوں  کہ تمہیں عشق و محبت کے گُر سیکھاوں! مچھلیوں کو تیرنے کے لیے  تعلیم کی کوئی حاجت نہیں ہوتی/ پرندوں کو بھی؛پرواز کے لئے... اکیلے ہی تیرو!  اکیلے ہی اڑان بھرو!!! عشق کی کوئی کتاب نہیں ہوتی  دنیا کے عظیم عشاق(عاشق)!! پڑھنا نہیں جانتے تھے... * مہدی سبطین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ * طالب علم شعبہ فارسی جی سی یونیورسٹی، لاہور

اقبال، اثر صاحب اور میں

Image
  اقبال، اثر صاحب اور میں ہائی سکول کا زمانہ ایک یادگار کے طور ہر میرے ذہن میں محفوظ رہ گیا ہے۔ وقت کے تند و تیز دریا میں یادیں تو جیسے گھاس پھوس کی مانند بہہ جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی کچھ یادیں اس قدر حسین ہوتی ہیں کہ بھولتی نہیں ہیں۔ ہائی سکول میں اساتذہ تو سب ہی اچھے تھے۔ لیکن میرا قلبی لگاؤ ذکا اللہ اثر صاحب سے کچھ زیادہ تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں ہائی سکول گیا تھا تو صرف ایک صاحب کے چرچے تھے۔ ہر بچہ ذکا اللہ اثر صاحب کا شاگرد ہونے پر فاخر تھا۔ خدا کی رحمت کہ مجھے بھی اردو اثر صاحب نے پڑھائی۔ ان سے وابستگی کب دل بستگی میں بدل گئی پتا ہی نہیں چلا۔ بہرحال دو سال کا طویل عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ الواعی تقریب قریب تھی۔ الوداعی تقریب سے ایک دن قبل ہم طالب علموں کو سکول سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس دور میں ایک رواج چل نکلا ہے کہ بچے اپنے اساتذہ سے اپنی شرٹ ہر دستخط کرواتے ہیں۔ میں بھی اس روایت کی پاسداری میں رنگ برنگے مارکر لیے اثر صاحب کے پاس جا پہنچا اور ان سے دستخط کی فرمائش کی۔  یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اثر صاحب اقبالیات اور بالخصوص تصوف کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔   اثر صاحب نے اقبال

دو ناکام فلسفی

Image
انسان اپنے آپ کو تلاشتے برسوں صرف کرتا ہے۔ اپنی تلاش کےدوران کچھ ایسے لوگ ملتے ہیں جو خود تو کم کم ملتے ہیں۔ لیکن ان سے دل بار بار ملتا ہے۔ ادبیات ایک باغ ہے۔ جس میں ہر نئی فصل میں نئے پھول کھلتے ہیں۔ نئے پھل اگتے ہیں۔ لیکن فلسفہ اس سب سے الگ ہے۔ خشک، قطعی صحرا کے مانند۔ انسان ہمیشہ کسی نہ کسی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ کبھی کسی خیال کے ساتھ تو کبھی کسی ہم خیال کے ساتھ۔ اقبال کی سوانح سے فلسفے کا شوق ہوا تھا۔ لیکن موقع نہیں بنتا تھا کہ باقاعدہ فلسفہ پڑھا جا سکے۔ صبح کا سورج طلوع ہوتا تھا اور شام کو طشت افق سے لالے پھول لے کر شام سیاہ قبا کو مار کر غروب ہو جاتا تھا۔ زندگی تو تھی لیکن اس کے معنی و مفاہیم پر غور و فکر کی تحریک نہ تھی۔ دنیا صرف ایک بہتے دریا کی سی تھی۔ سب بے معنی سا تھا۔ لیکن پھر ایک لڑکا ملا۔ مست، جوان مطالعے کا رسیا۔ وہ ایہاب شریف تھا۔ جس نے سعودی کی گلیوں میں ایک لمبا عرصہ گزارا تھا۔ ہم نے فلسفہ پڑھنا ایک ساتھ شروع کیا تھا۔ کیا زمانہ تھا کہ ہم نطشے کو فلاسفیوں کا خدا سمجھتے تھے۔ اس کے اخلاقی فلسفے کو ہی دنیا کی بہتری کا آخری حل سمجھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم نطشے کو پڑھتے پڑھ

نظم "گزرتی شام" از طلحہ فاران

Image
گزرتی شام از طلحہ فاران ہےکنجِ قفس میں عجب سی یہ رونق زِ پیشِ سلاسل، تمناؤں کا رقص نگہ سے ٹپکتی ہوئی وحشتوں کے اجالے بدن فرش افتادہ، ترسیدہ سا دل فسوں خیز جذبوں کے دم توڑنے کی صدائیں تری یاد کے نغمہ ہائے شرربار دلِ خستہ، ناکردہ کی گلیوں میں چلتی ہوئی عجب سرد و تیرہ ہوائیں تجھے ناشنیدہ سے الفاظ میں اک بلاتا ہوا دل پسِ سلسلہ ہائے تاریک و تیرہ میں بیٹھا ہوا مَیں!! مرا دل قزاگندہ بہ آہ و نالہ بہ سوئے قفس ہولے سے یوں بلاتا ہے تم کو کوئی شام سورج کو آواز دیتی ہو جیسے پکھیرو کوئی آشیانے کو لپکے مگر میری آواز کیسے تمھاری طرف آن پہنچے سہانی محبت بھری شام میں ہے اداسی کا غوغا  میں تنہا نشستہ ہوں سمجھاتا دل کو  کبھی ورغلاتا ہوں دل کو بہت شامیں ایسے گزرتی ہیں میری کسی شام یوں ہی گزر جاؤں گا میں طلحہ فاران

پیر پرنیان اندیش در صحبتِ سایہ اور اقبال لاہوری

Image
پاکستان کے فارسی گو شاعر اقبال لاہوری کے بارے میں، ہوشنگ ابتہاج سایہ اپنی کتاب پیر پرنیان اندیش کی جلد دوم ص 845 پر لکھتے ہیں:  (عظیمی اور سایہ کے درمیان مکالمہ) عظیمی : آپ اقبال لاہوری کے بارےمیں کیا رائے رکھتے ہیں؟ سایہ : شاعر برا نہیں ہے لیکن کہیں بہت اعلی لکھتا ہے تو کہیں سطحی، بس اس کی شعریات اسی پریشان حالی کا شکار ہے۔ بہت جگہوں پر اس کی فارسی زبان دانی کمزور پڑ جاتی ہے۔ خیر، وہ اہل زبان نہیں ہے۔ لیکن بعض جگہوں پر اس  نے بہت اعلی بھی لکھا ہے۔ عظیمی : مثال کے طور پر کن جگہوں پر؟ سایہ : مثلا وہ شعر کہ ھستم اگر میروم ساحل افتاده گفت گرچه بسی زیستم     هیچ نه معلوم گشت آه که من کیستم موج زخود رفته‌ای تیز خرامید و گفت     هستم اگر می‌روم گر نروم نیستم یا یہ شعر بہت عجیب و غریب ہے۔  ما زنده برآنیم که آرام نگیریم موجیم که آسودگی ما عدم ماست یا وہ عزل کہ خود گری، خود شکنی،خود نگری۔۔۔۔۔ بہترین غزل ہے۔ نعره زد عشق که خونین‌جگری پیدا شد حسن لرزید که صاحب‌نظری پیدا شد فطرت آشفت که از خاک جهان مجبور خودگری خودشکنی خودنگری پیدا شد خبری رفت ز گردون به شبستان ازل حذر ای پردگیان پرده‌دری پیدا شد